Wednesday, August 19, 2020

خواب خیال اور زندگی

خواب شاید انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی اک عجب سی اہمیت اور امید کا استعارہ رہے ہیں۔ اور یہ خواب ہی تو ہیں جو انسان کو نت نے ٰ انوکھے تصورات اور مختلف خیالات سے اشنا کرتے رہے ہیں، انسانی ترقی میں خوابوں کا کردار کبھی کم نہیں کیا جاسکتا اور اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خواب دیکھنے سے ہی سب کچھ ممکن ہو جائے ٰ گا مگر خیال اور خواب کے بغیر شاید پہلا قدم اٹھانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ خواب انسان کی زندگی میں ایک ایسے دروازے کی مانند ہیں جو اسے انوکھی سرزمینوں، اجنبی کائناتوں اور حیران کن مناظر سے روشناس کرانے کے راستوں پر لے جاتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ خواب گمشدہ میراث تک لے جانے کے سراغ پر مبنی اشارے ہیں اور جو ان اشاروں کو سمجھ لیتا ہے وہ بہت سی مشکل اور غیر حل شدہ پہیلیوں کے جواب ڈھونڈھ سکے گا۔ انسان اپنی تاریخ کی ابتدا یا وسط سے ہی بہت سی پراسرار داستانوں اور ساحرانہ طاقتوں کی کہا نیوں کے طلسم میں گرفتار رہا ہے اور ان دیکھی دنیاؤں کا اسیر رہا ہے۔ ان دیکھی اور انجانی دنیاؤں کی کشش شاید اس کی سرشت میں اس طرح شامل ہے کہ یہ اس کو بے قرار رکھتی ہے شاید اسی کشش کے زیر اثر سفر انسان کو ایک ہی وقت میں لبھاتا بھی ہے اور خوفزدہ بھی کرتا ہے۔ اگر خواب اور خیال نہ ہوتا تو شاید آج بھی انسان فضاؤں میں سفر نہ کر سکتا۔ کہکشاں میں جانے کے لیے راکٹ نہ بنا پاتا۔ ہاں خواب اور خیال بلاشبہ پہلا مرحلہ تھا اور اس کے بعد کے مرحلے بھی کوئی آسان نہ تھے کہ صدیوں کے سفر کے بعد خوابوں اور خیالوں کو ایک صورت دینا ممکن ہوا اور شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ دی جانے والی صورت شاید خواب کی پوری تعبیر تو نہیں لیکن ایک ابتدائی صورت ہی ہے اور اس ابتدائی صورت کو تشکیل دینے میں بھی عشروں اور صدیوں کا وقت لگا۔ ایک زمانے میں یہ خیال کیا جانے لگا کہ فنون لطیفہ خصوصاً شاعری، ادب، کہانیاں شاید گھاٹے کا سودا ہے اور اس خیال کے نتیجے میں دنیا کے کافی خطوں اور ممالک میں بہت سی الجھنیں اور سماجی تنازعات وجود میں آنے لگے جنہوں نے سائینس اور فنون لطیفہ کے درمیان غیر ضروری تنازعہ پیدا کیا کہ جیسا کہ دو دشمن ریاستوں میں پایا جاتا ہے اور شاید ہمارا خطہ جس کو درست یا غلط طور پر جنوبی ایشیا کہا جاتا ہے اس سے کافی حد تک متاثر ہوا۔ لیکن چونکہ اس خطے میں بقا پذیر اور موجود ہر اک تہذیب اور فنا شدہ تہذیبوں کی ساخت میں فنون لطیفہ کا کردار نہایت اہم رہا ہے تو ایک حد سے زیادہ اس غیر ضروری تنازعے نے نقصان تو پہنچایا مگر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کو فنون لطیفہ کی اہمیت، اثر، قوت اور ضرورت کے احساس سے دوبارہ شناسا ہونے میں سہولت رہی۔ اس پر اظہار خیال ضرورت محسوس ہوئی کہ خواب اور خیال کی اہمیت اور ضرورت کو شاید اس کی وجہ سے تنقید اور طعنے کا نشانہ بننا پڑا۔ جب کہ انسانی تاریخ میں ہونے والی ایجادات اور ترقی کے پیچھے اک خواب اور خیال ہی رہا ہے اور جس کا ثبوت کہانیاں ہیں جنہوں نے کسی زمانے میں اک خواب اور خیال کے طور پر مقبولیت حاصل کی اور پھر موجدوں اور سائینس دانوں کی عملی جدوجہد کے بعد عملی صورت میں تشکیل پذیر ہونے لگیں۔ اڑن قالین، اڑنے والی اور دیگر چیزوں پر مبنی کہانیاں جو بعد میں ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، راکٹ، ڈرون اور اڑنے والی دیگر اور ان سے متعلقہ ایجادوں کے پیچھے اک سبب بنیں۔ اک پوری نسل کی پرورش و تربیت اور ان کی ذہنی ترقی کے لیے کہانی کی تاریخی اہمیت کی ضرورت اور کردار میں کوئی شبہ نہیں ہے اور کہانی کی تشکیل میں خواب اور خیال کا بنیادی کردار ہے کہانی اک بچے اور نوجوان کی ذہنی تربیت کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ سوچ کے مختلف زاویوں اور پہلوؤں کو جاننے کے عمل میں اس کا بہت ساتھ دیتی ہے، ساتھ ساتھ تصور کے سفر کو جلا ملتی ہے، اک شخص کو میدانوں، پہاڑوں، صحراؤں، وادیوں، دریاؤں اور انوکھی سرزمینوں کو دریافت کرنے کی ہمت و قوت ملتی ہے جو بحیثیت اک انسان کے اس کی زندگی میں اس کی بہت مدد کرتی ہے۔ کافی عرصہ قبل میں نے ایک اردو اخبار میں ایک کالم لکھا تھا کہانی کی ثقافت اور بے سمت معاشرہ۔ اس کالم میں دراصل کہانی اور زندگی کے باہمی تعلق اور اک فرد کے بارے میں کچھ بات کی گئی تھی۔ چند سطور حوالے کے لیے یہاں نقل کرتا ہوں۔ کہانی ایک مکمل ثقافتی عنصر ہے جو ہر اک پہلو سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جو معاشرہ بھی کہانی کی ثقافت سے دور ہوتا ہے اور لفظوں کی قدر کو بے قدر کرتا ہے، جو معاشرہ بھی خواب کو، خیال کو، فکر کو، سوچ کو، تخلیق کو اور تحریر کو نظرانداز کرتا ہے، وہ معاشرہ خود بے قدر ہو جانے کی سمت کو گامزن ہوتا ہے اور اس کے اس سفر کی رفتار بہت تیز ہوتی جاتی ہے۔ لفظ تلخ ہوسکتے ہیں مگر بات تو درست ہے نا۔ اس معاشرے کو کہانی اور حکایت کی ثقافت کو زندہ کر کے خود کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی ضرورت جو زندگی کے لیے سانس لینے کی ضرورت کی طرح ہے۔ مندرجہ بالا سطور کا تذکرہ اس لیے کیا کیونکہ خواب اور خیال کی ادب میں علامت کہانی ہی ہے، یہ کہانی ہی ہے جو تصور کو لباس مجاز فراہم کرتی ہے اور اگر خواب اور خیال کو بے قدر کرنا ہو تو کہانی کو بے قدر کرنا پہلا مرحلہ سمجھا جائے۔ علم کا تعلق سوچ اور فکر سے ہے اور وچ اور فکر کا تعلق خواب اور خیال سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ خواب اور خیال تصور کے تیزرفتار پرندے کو پرواز کا حوصلہ بخشتے ہیں اور کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آج ہمیں اس حوصلے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے؟ --------------------------------------- Voice of Life by Faisal Ali Arain http://www.faisalaliarain.blogspot.com http://www.faisalaliarain.wordpress.com